۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید محمد زمان باقری

حوزہ/ ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ و امام الجماعت مسجد شیعہ و امام باڑہ قلعہ رامپور۔ہند نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ "جان کا بچانا کسی مصلحت سے عبادت کے انجام دینے سے بہتر ہے" امسال اپنے اپنے گھروں میں دو گانہ عید الفطر کی نماز ادا کریں اور حکومت ہند کا ہر ممکنہ تعاون کریں و اپنے شہر کی انتظامیہ اور ایڈمسٹیشن کا ساتھ دیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید محمد زمان باقری، ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ و امام الجماعت مسجد شیعہ و امام باڑہ قلعہ رامپور۔ہند نے روز" فطر" کو عید کیوں قرار  دیا گیا ہے؟ کے سوال میں اپنی ایک تحریر میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو خوشی کے مواقع اور تاریخیں تو بہت سی ہیں لیکن ان ساری خوشیوں میں جیسی خوشی لوگ عید الفطرکی مناتے ہیں کسی اور کی نہیں مناتے اور جیسی تیاری عید فطر  کی کرتے ہیں کسی اور کی نہیں کرتے؛عید فطر ان خوشیوں میں سے ہے جسے ہر مسلمان مناتا ہے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس خوشی میں شامل ہوتے ہیں اور عید کی مبارکباد پیش کرنے کے لئے مسلمانوں کے گھر آتے ہیں جیسا اتحاد۔ پیارومحبت۔ اور گنگا جمنی تہذیب عید کے دن دیکھنے کو ملتی ہے کسی اور دن دیکھنے کو نہیں ملتی عیدیں تو کئی ہیں عید قربان،عیدغدیر اور جمعہ سب عیدیں ہیں لیکن مسلمانوں میں جس عید کی ظاہری طور پہ زیادہ اہمیت اور جس کی زیادہ تیاری ہوتی ہے وہ عید فطر ہے اور دوسری عیدیں ظاہری اعتبار سے عید فطر کے مقابلہ پھینکیں پڑ جاتی ہیں عید الفطر کی تیاری ماہ مبارک رمضان شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد شروع ہو جاتی ہے اس بار عید میں کیا پہننا ہےکیا کھانا ہے۔

عید الفطر ماہ مبارک  رمضان کے پورے ایک مہینےکے روزوں کے بعد آتی ہے جس کا ہر انسان بہت ہی بے چینی اور بےصبری سے انتظار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہئے روزہ داروں سے زیادہ وہ لوگ عید کی تیاری میں دبلے ہوتے جاتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے ہیں زیادہ تر لوگوں کا ہم و غم یہی ہوتا ہے کہ عید کی تیاری بہتر سے بہتر ہو۔ معصومین علیہم السلام کی نگاہ میں عید کس کو کہتے ہیں؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ روز فطر کو اس لئے عیدالفطر  کہا جاتا ہےتاکہ مسلمانوں کے لیئے محل اجتماع  قرار پائے اور سب ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور خدا کے لیے باہر آئیں ۔

مگر دور حاضر کووڈ١٩ کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ہر مسلمان دوگانہ عید گاہ میں نہ پڑھ کر کے  یا کسی مسجد میں نہ جا کر دوگانہ ۔نہ ادا کریں بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں  میں دو گانہ عید الفطر کی نماز ادا کریں اور حکومت ہند  کا ہر ممکنہ تعاون کریں ۔اپنے شہر کی انتظامیہ اور ایڈمسٹیشن کا ساتھ دیں۔

"یاد رہےجان کا بچانا کسی مصلحت سے عبادت کے انجام دینے سے بہتر ہے"اور خدا نے جو نعمتیں ان کو عطا کی ہیں  اس کے بدلے میں اس کی تعریف اور بزرگی بیان کریں۔ روز فطر۔  روز عید ہے۔ روز اجتماع ہے ۔روزہ کو توڑنے کا دن ہے۔ فطرہ کا دن ہے۔ ("فطرہ"جو ہر بالغ و عاقل شخص پر واجب ہے فطرہ ہروہ انسان جس کو  زیادہ تعداد میں سال میں استعمال کرتا ہے   کھاتا ہے ۔اس کا یا اس کے برابر کی قیمت کا ادا کرے گا جس شہر جس علاقے میں جو قیمت اس شی کی ہے اسی اعتبار سے تین کلو تقریبا  ہر فرد کی جانب سے نکالے گا اگر گیہوں زیادہ مقدار میں استعمال کیا ہے تو گیہوں۔ جو استعمال کرتا ہو تو جو۔ آٹا استعمال کرتا ہوتو آٹا۔چاول استعمال کرتا ہو تو چاول۔  غرض جس علاقے میں جتنی کیلو گرام کی قیمت ہے اسی اعتبار سے انسان تین کلو کے اعتبار سے اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے نکالے گا۔چاند رات کو پیدا ہونے والے اپنے بچہ کی جانب سے بھی فطرہ نکالنا واجب ہے۔ فطرہ یہ غریب بیکس و مجبور و محتاجوں کی عید منانے کا سامان ہے اسکو مستحق تک قبل از عید پہونچا نا افضل و احسن عمل ہے۔)دوستی کادن ہے۔ تضرع اور گریہ و زاری کا دن ہے!

امام علی علیہ السلام نے عید کے موقع پر فرمایا حقیقی اور واقعی عیدالفطر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے۔اور جن کی نماز قابل قدر ہوجائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے وہی روز۔ روز عید ہے۔یعنی جس دن انسان سے گناہ نہ ہو۔وہ دن اس کے لیے عید کا دن ہے۔

"سوید ابن غفلہ کا بیان ہے کہ میں عید کے دن امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے دستر خوان بچھا ہوا ہے اور اس پر تھوڑی سی روٹی اور ایک ظرف میں خطیفہ (ایک قسم کا معمولی کھانا جسے آٹے میں دودھ ملا کر پکاتے ہیں اور پھر چمچہ سے کھاتے ہیں) چمچہ کے ساتھ رکھا ہوا ہے میں نے کہا اہے امیر المومنین علیہ السلام  عید کے دن اور یہ غزا !آپ نے فرمایا کہ یہ عید اس کی ہے جو بخش دیا گیا ہو۔
نبی کریم ص ۔نے فرمایا اپنی عیدوں کو اللہ اکبر کے ذکر سے زینت دو ۔ آپ نے فرمایا ۔عید فطر ۔اور عید قربان۔ کو   لا الہ الا اللہ۔و اللہ اکبر۔ والحمدللہ۔اور سبحان اللہ۔کے ذکر سے زینت دو۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم عید کے دن جب گھر سے باہر نکلتے تھے توجب تک نماز کی جگہ تک نہیں پہنچ جاتے تھے تکبیر کہتے رہتے تھے۔جناب جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شوال کے پہلے دن کی صبح میں ایک منادی آواز دیتا ہے اے مومنو ! اپنا انعام لینے کے لئے صبح کرو اور پھرآپ نے فرمایا اے  جابر خدا کا انعام بادشاہوں کے انعام کی طرح نہیں ہے ۔امام علی علیہ السلام نے عید کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اے لوگو ! یہ دن تو تمہارا ایسا دن ہے جس میں نیک عمل انجام دینے والے اجروثواب پائیں گے اور برے عمل انجام دینے والے نقصان اور گھٹا اٹھائیں گے اور یہ دن قیامت کے دن سے کافی مشابہت رکھتا ہے پس جب تم عید کی نماز کے لیے اپنے گھروں سے نکلو تو اس دن کو ضرور یاد کرو جب اپنے پروردگار کی بارگاہ میں کھڑے ہو گے ۔اور جب اپنے گھروں کو واپس آنے لگو تو اس دن کو یاد کرو جب اپنے جنت یا جہنم کے گھروں میں پلٹو گے۔اے خدا کے بندو سب سے کم اور معمولی جو چیز روزہ دار مرد اور عورت کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری دن ایک فرشتہ ان لوگوں کو آواز دیتا ہے اے خدا کے بندو تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ خداوندعالم نے تمہارے پچھلے گناہوں کو بخش دیا ہے بس محتاط رہو کہ اس کے بعد کیا کرو گے اور کون سا فعل انجام دو گے۔عید الفطر کے روز امام سجاد علیہ السلام کی دعاءامام سجاد  ع خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں خدایا ہم تیری بارگاہ میں آج کے یوم الفطر میں جسے تو نے صاحبان ایمان کے لئے روز عید و مسرت قرار دیا ہے اور اپنے اہل ملت کے جمع ہونے کا سامان فراہم کیا ہے ۔ہر اس گناہ سے توبہ کر رہے ہیں جس کا ارتکاب کیا ہے یا جو برائی ہم سے سرزد ہوئی ہے۔یا جو برا خیال ہمارے دلوں میں پایا جاتا ہے اوریہ توبہ ایسی ہے جس میں دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ کر جانے کا کوئی خیال نہیں ہے اور نہ ہی دوبارہ خطا کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔یہ ہماری توبہ ہر طرح کے شک و ریب سے پاک ہے لہذا اسے قبول کرلے اور ہم سے راضی ہو جا اور پھر ہمیں اسی توبہ پر ثبات قدم بھی عنایت فرما۔

خالق اکبر ہمیں اس عید الفطر کے طفیل اور صدقہ میں بالخصوص جہان عالم میں رہنے والی بشریت کو ہر طرح کے امراض ہر طرح کی وباء اور مہلک بیماری سے اور ہر طرح کے مہلک وائرس سے محفوظ فرما ۔اور وہ دن بھی قریب لا کہ جس دن یوسف زہرا ص کے نور نظر جناب نرجس خاتون کے لخت جگر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور پر نور ہو اور پھر ساری دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو ہر ایک کو اس کا حق ملے فضائے کائنات میں بس ایک صدا گونجے جاء الحق و ذحق الباطل حق آیا اور باطل مٹ گیا وہی ہمارے لیے عید کا سب سے بڑا دن ہوگا۔رب کائنات ہم سب کو نیک عمل  انجام دینے کی توفیق مرحمت فرما اور عبادت خداوندی کو انجام دینے کی توفیقات میں مزید اضافہ مرحمت فرمائے۔نماز عید الفطر ۔ عید الاضحی۔مسلک اہل تشیع میں سنت (مستحب) فعل ہے اگر اسکو حالات ناگفتہ بہ کے تحت  پڑھا بھی نہیں جاے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔لہذا مسجد میں ادا نہ کرکے اپنے گھر وں میں ہی ادا کریں۔اپنی جان اور دوسروں کی جانوں کی حفاظت کرنا عید الفطر کی نماز ادا  کرنے سے افضل ترین عمل ہے۔

 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .